۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
دعا ابو حمزہ ثمالی

حوزہ/ دعائے ابو حمزہ ثمالی ایک عظیم دعا ہے جس میں امام زین العابدین ؑ نے دعا کے پردے میں مختلف علوم و معارف کے دریا بہائے ہیں۔ توحید اور معرفت پروردگار سے لے کر اخلاق تک سبھی کچھ اس دعا میں مل جاتا ہے۔یہ دعا ہمیں اخلاقی فضائل و رذائل سے بھی آگاہ کرتی ہے اور ہمیں نیک اور صالح زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔

تحریر: مولانا سید عمار رضا نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی | موجودہ دور میں مادی طرز زندگی اور حد سے زیادہ ظاہر پرستی نے ہماری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔ ہم روحانیت و معنویت سے دورہو گئے ہیں اورحواس ظاہری خاص طور سے قوت سماعت و بصارت کی تسکین میں اتنے مگن ہو گئے ہیں کہ ہم نے اپنی روح اور اس کے ضروریات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ہمارا سارا دھیان صرف جسم و جسمانیات خاص طور سے چشم سیری اور باصرہ نوازی پر ہے۔انہیں دونوں حواس کی تسکین و ارضا کے لئے نت نئے وسائل ایجاد ہو رہے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہماری روح ہماری توجہ سے محروم ہو گئی ہے۔

حالانکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جسم کے ساتھ ساتھ روح و نفس سے بھی نواز ا ہے۔دونوں کے اپنے اپنے تقاضے اور ضرورتیں ہیں۔جس طرح جسم کو غذا درکار ہے اسی طرح روح کو بھی غذا کی ضرورت ہے۔ درست عقائد،علم و دانش،عبادت و ریاضت اور اخلاق حسنہ روح کے لئے غذا کی حیثیت رکھتے ہیں۔

جدید طرز زندگی،عیش پرستی اور سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کے بے محابا استعمال نے ہمارے اخلاقیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ایسے میں ہمیں اسلام کے اخلاقی پیغام کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے ۔اسلام کے اخلاقی پیغام کو سمجھنے کے لئے ہم مختلف منابع سے مدد لے سکتے ہیں جن میں سے ایک ائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول دعائیں ہیں۔ائمہ اہلبیت علیہم السلام خاص طور سے امام زین العابدین علیہ السلام نے دعاؤں کو علوم معارف کا ایک مدرسہ بنا دیا ہے جہاں طالبان حقیقت اپنے اپنے شوق اور ظرف کے مطابق علم کے موتی چن سکتے ہیں۔توحید اور امامت و معاد سے لے کر اخلاقیات و سماجیات تک سب کچھ ان دعاؤں میں موجود ہے۔ہم اپنے اس مضمون میں ماہ مبارک رمضان میں سحری کے وقت پڑھی جانے والی عظیم دعا، دعائے ابو حمزہ ثمالی کے بعض اخلاقی تعلیمات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

اخلاق کے دو حصے ہیں: فضائل اور رذائل۔اخلاقی فضائل اور رذائل وہ بنیادی اوصاف ہیں جن سے انسانی کردار و شخصیت کی تشکیل ہوتی ہے۔فضائل وہ اچھے صفات ہیں جو انسان کو نیک اور صالح بناتے ہیں جبکہ رذائل سے مراد وہ صفات ہیں جو اسے انسانیت کے درجے سے گراکر بہائم کی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں۔دعائے ابو حمزہ ثمالی میں ہمیں دونوں طرح کے صفات کا تذکرہ ملتا ہے۔

• اخلاقی فضائل:

1۔صبر و تحمل: امام علیہ السلام اس دعا میں ایک مقام پر بارگاہ معبود میں دست طلب دراز کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللھم انی اسالک صبراً جمیلاً؛ خدایا !میں تجھ سے صبر جمیل کی درخواست کرتا ہوں۔

صبر ایک ایسی اخلاقی فضیلت ہے جو تمام شعبہ ہائے حیات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے شرط لازم کی حیثیت رکھتی ہے۔ صبر نہ ہو تو انسان مشکلات و مصائب کے سامنے سپر انداختہ ہوجاتا ہے اور کامیابی سے محروم ہوجاتا ہے۔اس مادی دنیا کی طبیعت اور مزاج کچھ یوں ہے کہ یہاں کسی بھی عظیم مقصد تک پہنچنے کا راستہ مشکلات و مصائب سے ہو کر گزرتا ہے۔اس لئے وہی لوگ عروس کامیابی سے ہمکنار ہوپاتے ہیں جو صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے ڈٹ کر مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں ۔

سائنس اور ٹکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی نے ہماری زندگی کو بجلی کے گھوڑے پر سوار کر دیا ہے۔ نت نئی ایجادات اوربرقی وسائل کی بہتات سے پیچیدہ سے پیچیدہ کام بھی منٹوں سیکنڈوں میں انجام پا رہے ہیں۔آن لائن شاپنگ کی بدولت ہم اپنے گھروں سے ہی چند کلکس کے ساتھ کچھ بھی خرید سکتے ہیں۔ مختلف معلومات تک رسائی پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو گئی ہے اور ہم اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے کسی بھی موضوع پر چند سیکنڈ میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔اشیاء اور خدمات کی تیز ترین فراہمی نے ہمیں فوری تسکین کا عادی بنا دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے اندر صبر ضبط کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔اگر کسی کام میں ذرا بھی تاخیر ہو تو ہمارے ضبط کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے اور ہم فرسٹریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ایسے میں ضرورت ہے کہ ہم اپنے امام کے اس پیغام کو اپنی زندگی میں شامل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے صبر جمیل کی دعا بھی کریں اور عملی طورپر خود کو اس عظیم فضیلت سے آراستہ کرنے کی کوشش بھی کریں۔

2۔شکر: مصائب و مشکلات میں صبر کی طرح نعمتوں پر شکر گزاری کا جذبہ بھی اخلاقی فضیلت ہے۔شکرگزاری ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان نعمتوں کی قدر کرتا ہے اور انہیں تسلیم کرتا ہے۔شکر گزاری جہاں ثواب اور نعمتوں میں اضافے کا باعث ہے وہیں اس سے بہت سے ذہنی اور جذباتی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔جب انسان نعمتوں کی قدر کرتا ہےا ور ان کے لئے اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے تو اس کے وجود پر سکون و قرار کا پر کیف احساس چھا جاتا ہے۔تناؤ، ا ضطراب، ڈپریشن اورتشویش جیسی منفی انرجی کا اخراج ہوجاتا ہےاور ذہن پر سکون ہوجاتا ہے۔شکر گزار لوگ زیادہ خوش اورمطمئن ہوتے ہیں ۔کیونکہ وہ اپنی زندگی میں موجود اچھی چیزوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور خوش ہونے کے لئے کسی بڑی خوشی کا انتظار نہیں کرتے۔

امام زین العابدین ؑ نے اس دعا میں مختلف نعمتوں کا شمار کیا ہےا ور انہیں سامنے رکھ کر پروردگار کا شکر ادا کیا ہے ۔اچھائیوں کا عام ہوجانا،برائیوں کی پردہ پوشی،مصیبتوں سے نجات یہ سب نعمتیں ہیں جو پروردگار ہمیں عطا کرتا ہے اور جن کے لئے ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہئے ۔امام فرماتے ہیں:

فَمَا نَدْرِي مَا نَشْكُرُ أَ جَمِيلَ مَا تَنْشُرُ أَمْ قَبِيحَ مَا تَسْتُرُ أَمْ عَظِيمَ مَا أَبْلَيْتَ وَ أَوْلَيْتَ أَمْ كَثِيرَ مَا مِنْهُ نَجَّيْتَ وَ عَافَيْتَ یعنی میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کس کس چیز کا شکریہ ادا کروں؟ نیکیوں کے مشہور کر دینے کا یا برائیوں پر پردہ ڈال دینے کا،بہترین عطیوں کا یا مصیبتوں سے نجات لانے کا۔

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

وَالْحَمْدُ للهِ الَّذي وَكَلَني اِلَيْهِ فَاَكْرَمَني، وَلَمْ يَكِلْني اِلَي النّاسِ فَيُهينُوني، وَالْحَمْدُ للهِ الَّذي تَحَبَّبَ اِلَيَّ وَهُوَ غَنِيٌّ عَنّي، وَالْحَمْدُ للهِ الَّذي يَحْلُمُ عَنّي، حَتّي كَاَ نّي لا ذَنْبَ لي، فَرَبّي اَحْمَدُ شَيء عِنْدي وَاَحَقُّ بِحَمْدي یعنی شکر ہے اس اللہ کا کہ اس نے اپنے حوالے رکھ کر عزت دی ہے ورنہ لوگوں کے حوالے کر دیتا تو لوگ ذلیل کر دیتے ۔وہ بے نیاز ہو کر بھی ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم کو یوں برداشت کرتا ہے جیسے ہم نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔وہ سب سے زیادہ قابل تعریف اور لائق شکر ہے۔

3۔خوف و رجا: قرآن و حدیث سے لیکر ادعیہ و زیارات تک اسلامی ادبیات میں خوف و رجا کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔خوف کا مطلب اللہ کے عذاب سے ڈرنا اور رجا کا مطلب اللہ کی رحمت کی امید رکھنا ہے۔ خوف انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے۔جب انسان اللہ کے عذاب سے ڈرتا ہے تو وہ گناہ کرنے سے باز رہتا ہے۔"رجا" انسان کو اچھے کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے ۔جب انسان اللہ کی رحمت کی امید رکھتا ہے تو وہ نیک کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ان دونوں میں توازن ضروری ہے۔اگر خوف نہ ہو اور بس امید ہی امید ہو تو انسان بے لگام ہو جائے ۔اس کے برعکس اگر خوف ہی خوف ہو اور امید نہ ہو تو اس کے اندر نیکیوں کی تحریک ہی پیدا نہیں ہو گی۔

ائمہ معصومین ؑ سے منقول دعائیں خوف و رجا کے توازن کی بہترین مثال ہیں۔ اگر آپ دعائے ابو حمزہ ثمالی کا مطالعہ کریں تو اس دعا پر شروع سے لیکر آخر تک خوف و رجا کی ملی جلی کیفیت طاری ہے۔ایک طرف امام عذاب الہٰی کا ذکر کرتے ہیں: إِلَهِي لاَ تُؤَدِّبْنِي بِعُقُوبَتِكَ یعنی خدایا! اپنے عتاب کے ذریعہ میری تنبیہ نہ کرنا۔ فَإِنْ عَفَوْتَ فَخَيْرُ رَاحِمٍ وَ إِنْ عَذَّبْتَ فَغَيْرُ ظَالِمٍ۔ یعنی اگر تونے معاف کر دیا تو تو بہترین رحم کرنے والا اور اگر تونے سزا دی تو تو ظالم نہیں ہے۔

قبر کی تاریکی اور تنہائی اور قیامت کی دشوار منزلوں کو یاد کرتے ہیں: فَمالي لا اَبْكي، اَبْكي لِخُروُجِ نَفْسي، اَبْكي لِظُلْمَةِ قَبْري اَبْكي لِضيقِ لَحَدي، اَبْكي لِسُؤالِ مُنْكَر وَنَكير اِيّايَ، اَبْكي لِخُروُجي مِنْ قَبْري عُرْياناً ذَليلاً، حامِلاً ثِقْلي عَلي ظَهْري۔ یعنی میں کیسے گریہ نہ کروں؟میں جانکنی کا تصور کرکے رو رہا ہوں۔ میں قبر کی تاریکی اور لحد کی تنگی کے لئے رو رہا ہوں۔میں منکر و نکیر کے سوال کے لئے رو رہا ہوں۔میں اپنے قبر سے برہنہ،ذلیل اور گناہوں کا بوجھ لاد کے نکلنے کے تصور سے رو رہا ہوں۔

تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور بے پاں رحمت کابھی ذکر کرتے ہیں: وَ هَبْ لَنٰا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ اَلْوَهّٰابُ فَوَ عِزَّتِكَ لَوِ اِنْتَهَرْتَنِي مَا بَرِحْتُ عَنْ بَابِكَ وَ لاَ كَفَفْتُ عَنْ تَمَلُّقِكَ لِمَا أُلْهِمَ قَلْبِي مِنَ اَلْمَعْرِفَةِ بِكَرَمِكَ وَ سَعَةِ رَحْمَتِكَ یعنی ہمیں رحمت عطا فرما کہ تو بہترین عطا کرنے والا ہے۔پروردگار! تیری عزت کی قسم اگر تو جھڑک بھی دے گا تو ہم تیرے دروازے سے جائیں گے نہیں اور تجھ سے آس نہیں توڑیں گے۔ہمارے دل کو تیرے کرم کا یقین ہے اور ہمیشہ تیری وسیع رحمت پر اعتماد ہے۔

اس کے علاوہ کئی جگہوں پر امام نے صراحت کے ساتھ خوف و رجا کا باہم تذکرہ کیا ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں: أَدْعُوكَ يَا رَبِّ رَاهِباً رَاغِباً رَاجِياً خَائِفاً إِذَا رَأَيْتُ مَوْلاَيَ ذُنُوبِي فَزِعْتُ وَ إِذَا رَأَيْتُ كَرَمَكَ طَمِعْتُ یعنی پروردگار ! میں تجھے پکارتا ہوں تو میری اس دعا میں خوف بھی ہے اور رغبت اور امید بھی۔اپنے گناہوں کو دیکھتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں اور تیرے کرم پر نظر جاتی ہے تو پر امید ہوجاتا ہوں۔

لہٰذا ہمیں اعتدال و توازن کا دامن تھام کر خوف و رجا دونوں کو اپنی شخصیت کا حصہ بنانا چاہئے۔یہ بھی نہ ہو کہ ہم محض شیعہ ہونے کو نجات کا ضامن سمجھ بیٹھےاور حرکت و عمل سے بے نیاز ہو جائیں۔دوسری طرف پروردگار کے فضل و کرم اور آل محمد کی شفاعت سے مایوس و نامید بھی نہیں ہونا چاہئے۔

اخلاقی رذائل:

1۔حب دنیا: اگر مسئلہ گناہ کا تجزیہ کیا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ گناہ کی جڑ کیا ہے؟انسان گناہ کیوں کرتا ہے؟ کون سی چیز ہے جو انسان کو اپنے پروردگار کی نافرمانی اور معصیت پر آمادہ کرتی ہے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ہر گناہ کی پشت پر دنیا کی محبت کارفرما ہے۔ ہر وہ چیز جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کر دے اسے اسلامی ادبیات میں دنیا کہا جاتا ہے۔خواہ مال و ثروت ہو یا عہد و منصب ، جا ہ حشم ہو یا حکومت و اقتدار جو چیز بھی انسان کو اپنے آپ میں اس طرح مگن کردے کہ وہ اللہ سے غافل ہو جائے وہ دنیا ہے۔اور دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں: رأس كلّ خطيئة حبّ الدّنيا یعنی دنیا کی محبت ہر برائی کا سرچشمہ ہے۔ جب دنیا کی محبت دل میں گھر کر لیتی ہے تو انسان اس کے حصول کے لئے کسی بھی حدتک جا سکتا ہے۔دنیا کی محبت انسان سے حق و باطل،خیر و شر اور اچھائی برائی میں تمیز کی صلاحیت چھین لیتی ہے۔دنیا کی محبت میں گرفتار شخص نہ حق دیکھ پاتا ہے نہ سن پاتا ہے اور نہ بول پاتا ہے۔امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں: فَإِنَّ حُبَّ اَلدُّنْيَا يُعْمِي وَ يُصِمُّ وَ يُبْكِمُ یعنی بے شک دنیا کی محبت اندھا،بہرا اور گونگا بنا دیتی ہے۔

امام علیہ السلام دعائے ابو حمزہ ثمالی میں بارگاہ معبود میں دعا کرتے ہیں: سَيِّدي اَخْرِجْ حُبَّ الدُّنْيا مِنْ قَلْبي؛خدایا ! میرے دل سے گناہوں کی جڑ یعنی حب دنیا کو نکال دے۔اس طرح امام نے بالواسطہ طور پر ہمیں یہ پیغام دیاہے کہ اگر اللہ کا سچا اور نیک بندہ بن کر رہنا چاہتے ہو تو اپنے دل کو دنیا کی محبت سے پاک کر لو اس لئے کہ ایک دل میں بیک وقت دو متضاد چیزو ں کی محبت نہیں رہ سکتی ہے۔اگر اللہ سے محبت کرنا ہے تو دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرنا پڑے گا۔

2۔ریاکاری :عبادت اور بندگی کا قوام خلوص نیت سے اٹھتا ہے۔ اگر نیت میں خلوص نہ ہو تو عبادت عبادت نہیں مکاری اور فریب کاری ہے۔اسی لئے قرآن و حدیث میں ریاکاری کی سخت مذمت کی گئی ہے یہاں تک کہ اسے شرک اصغر سے تعبیر کیا گیا ہے۔رسول اکرم ؐ فرماتے ہیں:مجھے تمہارے سلسلے میں سب سے زیادہ ڈر شرک اصغر کا ہے۔پوچھا گیا یا رسول اللہ شرک اصغر کیا ہے؟ فرمایا:ریا کاری۔خدا وند عالم قیامت کے دن جب اپنے بندوں کو اجر عطا کرے گا تو کہے گا ان لوگوں کے پاس جاؤ جنہیں دکھانے کے لئے تم عبادت کیا کرتے تھے اور دیکھو کیا ان کے پاس تمہیں دینے کے لئے جزا ہے؟۔

امام علیہ السلام دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَ لاَ تَجْعَلْ شَيْئاً مِمَّا أَتَقَرَّبُ بِهِ فِي آنَاءِ اَللَّيْلِ وَ اَلنَّهَارِ رِيَاءً۔یعنی شب و روز میں انجام پانے والے میرے کسی بھی عمل خیر کو ریاکاری کا نتیجہ نہ قرار دے!

نمود و نمائش ،ظاہر داری اور دکھاوے کے اس دور میں ہماری عبادتیں اور کارہائے خیر بھی اس بیماری سے محفوظ نہیں رہ سکے۔عبادت،زیارت، حج کرتے ہوئے اور کسی کو روزہ افطار کراتے ہوئے تصویریں بڑے فخرسے سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہیں۔کوئی بھی کار خیر کیا جاتا ہے تو بڑے بڑے اشتہار چھپوائے جاتے ہیں،مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکروں سے اعلان ہوتے ہیں۔امام بارگاہ اور مسجد تعمیر کی جاتی ہے تو اس پر بڑا سا کتبہ لگوایا جاتا ہے کہ یہ فلاں صاحب کی کرم فرمائی کا نتیجہ ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے یہ کام عبادت کی نیت سے کیا ہے تو اس تشہیر کا کیا مطلب؟

نتیجہ

دعائے ابو حمزہ ثمالی ایک عظیم دعا ہے جس میں امام زین العابدین ؑ نے دعا کے پردے میں مختلف علوم و معارف کے دریا بہائے ہیں۔ توحید اور معرفت پروردگار سے لے کر اخلاق تک سبھی کچھ اس دعا میں مل جاتا ہے۔یہ دعا ہمیں اخلاقی فضائل و رذائل سے بھی آگاہ کرتی ہے اور ہمیں نیک اور صالح زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ماہ مبارک رمضان میں سحر کے پر کیف وقت میں ہمیں نہ صرف اس دعا کو پڑھنا چاہئے بلکہ اس کے معانی ومطالب میں غور بھی کرنا چاہئے اور اس کے پیغامات کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہیے۔آخر میں بارگاہ پروردگار میں دعا ہے کہ ہمیں سیرت اہلبیت علیہم السلام پر چلنے اور ان کی تعلیمات کو مشعل راہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے !

تبصرہ ارسال

You are replying to: .